زیر سماعت کیس اور چوہدری کا انصاف
حالیہ دنوں ملک میں کچھ مقدمات اور ان کے فیصلوں کو بڑی شدت سے مکالموں کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔جگہ جگہ ان ہی کے متعلق بحث ہو رہی ہے۔عدلیہ سے امداد کی ناصرف امید رکھی جا رہی ہے بلکہ چیخ چیخ کر پکارا بھی جا رہا ہے۔مگر اس کا تاحال کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ ناہی اسکا کوئی فیصلہ مستقبل قریب میں آنے کی امید نظر آرہی ہے۔بس ایک ٹرک کی بتی کے پیچھے عوام کو لگایا جا رہا ہے۔ اس پر بات کرنے سے پہلے ایک پرانا قصہ دیکھتے ہیں۔ ایک مرتبہ کا ذکر ہے کہ کچھ لوگ ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف سفر کر رہے تھے۔دوران سفر رات نے ان کو آلیا۔انہوں نے قریبی گاؤں میں ہی قیام کرنے کو عافیت جانا۔ایک شخص کے گھر دیا جلتادیکھاتو امداد لینے جا پہنچے۔دروازے پر دستک دی تو ایک بزرگ نے فورََا ہی دروازہ کھول دیا۔یہ گھر میراثیوں کا گھرتھا۔مسافر کچھ تسلی میں ہوئے کہ اب رات سکون سے کٹ جائے گی۔انہوں نے اس بزرگ سے گزارش کی کہ ہمیں قیام شب کے لیے ایک پناہ کی تلاش تھی۔آپ کے گھر کا روشن چراغ ہمیں اس در کی جانب مدد کیلیے لے آیا ہے۔ ہمیں ایک رات یہاں قیام کرنے کی اجازت دیں ہم مسافر ہیں۔بزرگ نے نہایت ہی سکون سے ان کی بات سنی کھانستے ہوئے گھر داخل ہوا اور ہاتھ کے اشارے سے مسافروں کو اندر بلالیا۔مسافروں کو اپنے چھوٹے سے گھر میں جیسے تیسے پناہ دی کہ کسی طرح رات کٹ جائے۔گھر کے سب لوگوں نے ان کا خوش دلی سے استقبال کیا۔جو تھوڑا بہت کھانے کو موجود تھامہمانوں کی تواضع کے لیے پیش کیا گیا۔مہمان مسلسل تشکر بھری نظروں سے اپنے میزبانوں کو دیکھ رہے تھے اور میزبان نہایت ہی اطمینان کے ساتھ ان کی مہمان نوازی میں مصروف تھے۔جب سب سونے کے لیے اپنے مقرر کردہ بستروں میں جا لیے تو مہمان رہ رہ کر میزبانوں کے احسان کو یاد کر رہے تھے اور ان کے لیے کروٹ کروٹ دعا کرتے سو گئے۔صبح سو کر اٹھے تو مہمانوں کیلیے خوشی کی ایک خبر تھی کہ ان کے قافلے میں موجود ایک گھوڑی نے بچے کو جنم دے دیا ہے اور یوں ان کے گھوڑوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے۔ان کی خوشی دیدنی تھی۔مگر اگلے ہی لمحے ان کو ایک شدید جھٹکا لگا جب ان کو معلوم ہوا کہ میراثیوں کی نیت خراب ہوگئی ہے۔اور وہ گھوڑے کے اس بچے کو ہتھیانا چاہتے ہیں۔اور اس ضمن میں میراثیوں کا یہ دعوہ تھا کہ یہ جانور دراصل ان کی گائے نے جنم دیا ہے۔اور یہ ان کا بچھڑا ہے نا کہ مہمانوں کا گھوڑا ہے۔کافی دیر تک بحث و تکرار رہی۔ دونوں فریق کسی بھی طرح ایک دوسرے کی بات ماننے کو تیار نا تھے۔شور وغل سن کر اہل محلہ میراثیوں کے گھر کے گرد جمع ہوگئے۔کچھ ہی دیر میں سارا معاملہ اہل علاقہ کے علم میں دیا گیا۔ایک سفید پوش بزرگ نے یہ فیصلہ کیاکہ اس معاملے پر جھگڑنا درست نہیں ہے۔ بہتر یہی ہے کہ اس فیصلے کو چوہدری صاحب کی عدالت میں لے جائیں۔چوہدری صاحب اس علاقے کہ ایک قابل اعتماد منصف تھے۔اور عوام ان کی منصفی کی گرویدہ تھے۔چوہدری صاحب کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا تھا کہ اگرچہ کوئی معاملہ ان کی عدالت میں نا لایا جائے اور ان کو اس کا معاملے کا علم ہوجائے تو خود دونوں فریقین کو بلوا کر اس معاملے کو حل کروا دیا کرتے تھے۔عوام سے چوہدری صاحب کی اس درجہ تعریف سننے کے بعد مہمانوں کو بھی چوہدری صاحب پر گویا اعتماد قائم ہوگیا۔اور انہوں نے بنا تاخیر کے اس معاملے کو چوہدری صاحب کی عدالت میں لے جانے کا فیصلہ کیا۔ مہمان پر امید تھے کہ فیصلہ حق اور سچ پر مبنی ہوگا اور ان کا گھوڑا ان کو واپس دلا دیا جائے گا۔مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ میراثی بھی پوری طرح مطمئن تھے اور ان کے چہرے پر پریشانی یا خوف کے کسی قسم کے کوئی تاثرات ہرگز نا تھے۔آخر چوہدری صاحب کے ڈیرے پر سب لوگ آگئے۔عوام کا جم غفیر دیکھ کر چوہدری صاحب بھی خوش تھے کہ آج ان کے در پر قریب پورا ہی گاؤں اکٹھا ہوکر آگیا ہے۔چوہدری صاحب کو بتایا گیا کہ کچھ لوگ انصاف کی غرض سے حاضر ہوئے ہیں۔یہ جانتے ہی چوہدری صاحب جوش میں آگئے اور انہوں نے منصفی اور خدا خوفی پر ایک پر جوش تقریر داغ دی۔عوام کی داد لمحہ با لمحہ چوہدری صاحب کے حق میں نعروں کی کی صورت میں مل رہی تھی جس سے چوہدری صاحب کا خون مزید گرمایا جا رہاتھا۔چوہدری صاحب کا جوش خطابت ذرا کم ہوا تو انہوں نے دونوں فریقین کو اپنا اپنا مقدمہ بتانے کا حکم دیا۔سب سے پہلے مقدمہ میراثی نے سنایا۔دروازہ بجنے کی آواز سے لیکر ان کو پناہ دینے تک کی ساری داستان اپنی زبانی اپنے مطابق۔گھوڑے بچھڑے کا کہیں ذکر ہی نہیں۔چوہدری صاحب مسلسل میراثیوں کی تائید کرتے رہے۔اور میراثیوں کااعتماد بڑھتا گیا۔اب باری تھی مسافروں کی۔ انہوں نے بھی ساری اپنی آب بیتی اپنی زبانی اپنے انداز میں بیان کی۔چوہدری نے ان کی بھی تائید کی۔مسافر بھی پر اعتماد تھے۔اب باری فیصلہ کرنے کی تھی۔چوہدری صاحب نے کچھ وقت مانگا۔اور سوچنے بیٹھ گئے۔چوہدری نے سوچا نظر تو صاف آرہا ہے کہ میراثیوں نے دھوکہ دیا ہے اور میراثی چوری کررہے ہیں۔مگر مسافروں کے حق میں فیصلہ کرنے سے مجھے کیا فائدہ ہوگا؟مسافروں نے تو چلے جانا ہے۔ میں تو ان گاؤں والوں کا قابل اعتماد ہوں میری منصفی پر تو کوئی شک بھی نہیں کر سکے گا۔ہاں مگر میراثیوں نے مستقل اس گاؤں میں رہنا ہے۔میرے قصیدے کرنے ہیں۔اور میری خدمت کرنی ہے۔گویا چوہدری اس نتیجے پر پہنچا کہ فیصلہ میراثیوں کے حق میں کر دے۔عوام انتطار میں تھی چوہدری صاحب نے سب کو مخاطب کیا ایک بار پھر انصاف کی اہمیت اور منصفی کی شان میں تقریر کی۔ساتھ ہی فیصلہ سنا دیا کہ مسافر جھوٹ بول رہے ہیں۔یہ بظاہر گھوڑا نظر آنے والا گائے کا بچھڑا ہے۔اور یہ میراثیوں کی ہی ملکیت ہے۔ساتھ ہی مسافروں کو شہر بدر کرنے کا حکم بھی صادر فرمادیا۔اہل علاقہ میں کچھ لوگ چوہدری صاحب کے اس انصاف پر حیران تھے مگر اکثریت ان کے حق میں نعرے لگا رہی تھی۔مسافر پریشان حالی کی کیفیت میں عوام کو دیکھتے جارہے تھے اور شہر سے باہر کی جانب بڑھ رہے تھے۔مگر بوڑھا میراثی رونے پر لگا ہوا تھا۔وہ بین کر کر کے رو رہا تھا۔آخر کار چوہدری صاحب نے رونے کی وجہ پوچھ لی۔تو میراثی آنسو پونچھتے ہوئے بولا”چوہدری صاحب میں روتا اس لیے ہوں کہ ہم مظلوم لوگ ہیں اور ایسے ظالمانہ مقدمات ہمارے خلاف آپ کی عدالت میں لائے جاتے ہیں خدانخواستہ آپ کو کچھ ہوگیا تو میری اولاد کو آپ جیسا عادل اور منصف فیصلہ کرنے والاکہاں میسر آئے گا“ یہ تو تھی ایک پرانی کہانی جو مجھے میرے استادِمحترم نے سنائی تھی۔اب رہی بات ملک میں چلنے والے کرپشن سمیت کئی مقدمات اور ان کے فیصلوں کی تو مقدمات چونکہ سپریم کورٹ میں ہیں جو پاکستان میں انصاف کے لیے سب سے بڑا اوربا اعتماد ادارہ تصور کیا جاتا ہے اوراس پر میں زیر سماعت مقدمات پر بحث کرنا قانونََا جرم ہے سو ہم اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرتے۔اللہ ہمارے ملک کو چوہدری صاحب جیسے عادل منصفوں کی موجودگی سے پناہ دے(آمین)
Comments
Post a Comment