علم و تحقیق اور اسلام
click to read in Hamariweb
ایک وقت تھا مسلمان پڑھنے لکھنے اور تحقیق کرنے کے حق میں ہوا کرتے تھے۔جیسا کہ ان کو ان کے خدا اور کی دینی کتب سے حکم تھا۔ اور ان کی طرف بھیجے گئے خدائے بزرگ و برتر کے پیغمبران کا مقصدتھا۔علم و فن کی دنیا میں مسلمان اپنا ایک مقام بنا رہے تھے۔دنیا مسلمانانِ عالم کی اس تیز رفتار ترقی کو مختلف انداز سے دیکھ رہی تھی۔اسی دورمیں یورپ سے بھی ترقی کی ایک لہر نظر آتی ہے اور ا ب علمی و ادبی میدانوں میں ترقی کا مقابلہ بظاہر مسلمان اور غیر مسلمان کے درمیان تھا۔علمی سطح پر ایک بہت بڑا انقلاب پرنٹنگ پریس کی ایجاد کی صورت میں آتا ہے ۔اب خط و کتابت کومحفوظ کرنے کا ایک نیا اور موثر ذریعہ سامنے آتا ہے۔مگرشدت پسند تنگ نظر اور کافی حد تک یہ بھی کہا جاتاہے کہ بِکے ہوئے مولویوں کا ایک فتویٰ سامنے آتا ہے کہ پرنٹنگ پریس حرام ہے اور اس کے ساتھ ہی اسلام سے منسلک ممالک میں اس کی ترویج ممکن نہیں ہوپاتی ۔ روایات اور اقدار کی بلندی کاگھِسا پِٹا نعرہ لگادیا جاتا ہے۔علمی اور ادبی حلقوں میں اس بندش کی شدید مخالفت کی جاتی ہے آخر کار کوششیں رنگ لے آتی ہیں پرنٹنگ پریس کو ــ’’حلال ‘‘ اور اپنے ’’اقدار‘‘ کے مطابق ہونے کا فتویٰ مل جاتا ہے ۔مگر افسوس کہ اس سارے کام میں قریب دو سو سال لگ جاتے ہیں اور دنیامسلمانوں کو پیچھے چھوڑتی ہوئی آگے نکل جاتی ہے ۔اب دنیا پر یورپ کے راج کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے ۔علمی و ادبی حلقوں میں یورپ کی بے مثال کاوشوں نے پوری دنیا کو یورپی تعلیم کے حصول کو تقریباََ مجبور کردیا۔غیر اسلامی ممالک نے وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے یورپی تعلیمی نظام کا آغاز کیا اور ترقی کے اس سفر میں یورپ کے ہمراہ ہولیے ۔اب باری مسلمان ممالک کی تھی یہاں پورپی تعلیم جو کہ وقت کہ اہم ٖضرورت تھی کو اپنے نصاب میں شامل کرنے کا وقت آتا ہے۔کُجا یورپی معیار کی تعلیم محض انگریزی جو کہ اس وقت بین الاقوامی رابطے کی زبان بن چکی تھی ملاؤں کے فتوے کی زد میں آگئی اور پھراس کا وجود مسلمان ممالک میں ناپید ہونے لگا۔برصغیر کا بیشتر حصہ بادشاہوں کی ’’شاہانا‘‘ خواہشات کے پیش نظر پسماندہ رکھا گیا۔تنگ نظر اور شدت پسند حلقوں کی بھرمار تھی یہاں ۔مذہب اور رایات کا وہ روپ جو ’’بظاہر‘‘ پارسا نظر آنے والے لوگ پیش کردیتے اسی کو ہی معیار بنا لیا جاتاتھا۔انسانی زندگی میں اصلاحات لانے والی تمام تر ایجادات تو اب ویسے بھی صرف یورپ میں ہی ہو رہی تھیں ۔اور تحقیق کا مرکز کا بھی صرف وہیں تک محدود ہوکر رہ گیا تھا۔برصغیر کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ یہاں کے فتوے تھے جو ہرایجاد اور ہر تحقیق کو یہودی اور غیر اسلامی قرار دے کر مسلمانوں کو اس سے مستفید ہونے سے باز رکھتے تھے۔مگر حیرت اس امر کی ہے کہ کچھ ہی وقت کے بعد اس فتوے کو جاری کرنے والے خود ’’گنجائش‘‘ نکال کر اس کو قبول کرلیتے ۔مگر ایسا ایک مخصوس وقت کے بعد ہوتا جس کی وجہ سے ہم ہمیشہ ترقی یافتہ دنیا سے ایک درجہ پیچھے ہی رہے۔چند مثالیں اور اس ضمن میں دیکھ لیتے ہیں جو کہ اس خطے کی فکر اور شعور کا ایک بہتر نقشہ پیش کرنے میں معاون ثابت ہوں گی۔ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں دوغلہ پن ہی ہمارا شعار بن گیا ہے ۔ہم اپنی تنگ نظری کم علمی اوربے شعوری کو کسی نا کسی طرح مذہب کے لبادے میں چھپا نے کی کوشش کرتے ہیں مگر ذیادہ وقت اس کی آڑ میں رہنا ممکن نہیں ہوتا اور پھر ہم مکمل ڈھٹائی کے ساتھ اپنی کہی ہوئی باتوں سے اور اپنے دیے ہوئے فتووں سے مکر جاتے ہیں۔مجبوراََ زمانے کے ساتھ چلتے ہیں مگر تب زمانہ آگے نکل چکا ہوتا ہے ہم اس کی دھول کا پیچھا کرتے ہیں ۔ہم نے سوال کرنے کا مادہ اپنے اندر سے ختم کردیا ہے ۔ہمارے اندر پوچھنے سوال کرنے کی ہمت ہی نہیں ۔ہمارے اندر اتنی اخلاقی طاقت ہی نہیں کہ ہم یہ پوچھ سکیں کہ جناب یہ کل اور آ ج کے درمیان ایک ہی موضوع پر آپ کا بیان آپ کے فتوے کیسے بدل گئے ؟؟کیا ہم کبھی پوچھ سکتے ہیں کہ کل تصویر کو حرام قرار دینے والے ’’تصویر والا ڈالر‘‘ کیسے خوشی خوشی اپنی جیب میں ڈال لیتے ہیں ۔کیسے تصویر والے نوٹ حضرت شیخ کے اوپر وارے جارہے ہوتے ہیں ؟کبھی کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ جناب وہ لینڈ لائین ٹیلی فونک نظام جسے آپ نے حرام اور یہودی سازش قرار دیا تھا وہ مدرسوں میں کیا کررہا ہے ؟؟بڑے بڑے علماؤں کے گھر میں دو دو کنکشن کی موجودگی کو کس معنی میں تعبیر کیا جائے ؟؟ٹی وی کو حرام قرار دینے والے مولوی ٹی و ی ریکارڈنگز کے لیے مارے مارے کیوں پھرتے ہیں؟؟بڑے بڑے عالم لائیو چینلز پر کیا کر رہے ہیں ؟ موبائل کو حرام قرارد ینے والے کیوں نگر نگر گلی گلی اس کوجیب میں لیے پھر رہے ہیں ؟خدارا دوغلہ پن سمجھیے ۔یہ درست ہے ہم مسلمان ملک میں رہتے ہیں ۔ہم میں سے اکثر مسلمان بھی ہیں ۔مگر نا تو اسلام جدت کے خلاف ہے نا ہی اسلام تعلیم و تحقیقی کی کسی طور پر نفی کرتا ہے ۔بلکہ اسلام جدت پسند ہے یا پھر یوں کہنا ذیادہ بہتر ہوگا کہ اسلام تو دین ہی جدت کا ہے ۔اسلام تو حکم ہی تعلیم و تحقیق کا دیتا ہے ۔اسلام تو مسلمان کی تعریف ہی یہی کرتا ہے کہ وہ عصر حاضر سے ہم آہنگ ہوگا تو پھر کیوں ایک مخصوص طبقہ اس کے خلاف اپنا عزم اسلام کے لبادے میں لیے پھرتا ہے ؟؟سوچیے اب وقت آگیا ہے کہ فیصلہ کیجیے کہ کیسے اس شر سے نمٹا جائے جو ہمیں اس جدید دور کے تقاضوں سے نمٹنے کی صلاحیت میں رکاوٹ بن رہا ہے ؟یہ ایک تنگ نظر لوگوں کا ایک محدود سا گروہ ہے جس کے وار کرنے کے طریقے بدل چکے ہیں اب کی بار اس کا حملہ نوجواں نسل ہے ۔ جس کے ذہن میں شر ایک مخصوص طریقے سے ڈالا جا رہا ہے ۔اب کی تعلیم کو اور تعلیمی نظام کو بدنام کرنے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں ۔جس کا مظاہرہ کبھی کسی سکول میں بم دھماکے سے کیا جاتا ہے ۔کبھی کسی سکول یا کالج جانے والی بچیوں کے قتل سے کیا جاتاہے ۔کبھی اس کا مظاہرہ کسی یونیورسٹی میں دہشت پھیلا کر کیا جاتا ہے ۔حالیہ دنوں میں اس کا مظاہرہ پنجاب یونیورسٹی جیسے ادارے میں ایک تنظم کی جانب سے غنڈہ گردی کی صورت میں نظر آیا ۔پھر اس کا ایک ثبوت گومل میں ملتا ہے ۔کیوں ایسا ہے کہ سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں سے منسوب غیر اخلاقی ویڈیوز جاری کردی جاتی ہیں جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا ۔کیوں مختلف اوقات میں سکولوں کالجوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں بنائی گئی تصاویر ایڈٹ کرنے کے بعد سوشل میڈیا پر ڈالی جارہی ہیں؟ایسی تصاویرکو کیوں مختلف جذباتی اور سنسنی خیز بیانات سے مزین کرکے موضوع بحث بنایا جارہاہے؟کبھی کسی یونیورسٹی کے بچے بچیاں اس کی زد میں آکر قتل ہوتے ہیں تو کبھی کسی کالج کی کوئی بچی ایسی ایڈیٹ کی گئی تصاویر دیکھ کر خود کشی کر لیتی ہے ۔یہ ایک سازش ہے سوچی سمجھی سازش ہے جس کے تحت پاکستان میں خواتین کی بڑھتی ہوئی شرح خواندگی کو متاثر کرنے کامنصوبہ ہے۔ناصرف اس سوچ کو پہچانیے بلکہ اس سوچ کوپھیلانے اور نافذ کرنے والوں کی نشاندہی کیجیے ۔آواز اٹھائیے اس سے پہلے کہ ہمیشہ کی طرح پھر دیر ہوجائے ۔یاد رکھیے آج بھی ہم ویسے ہی ایک موڑ پر ہیں جیسے ہم تاریخ میں اکثر و بیشتر کھڑے نظر آئے اور ہمیں ایک وقت کے لیے مختلف انداز سے تعلیم و ترقی سے دور کیا گیا آج کی سازشیں اس کڑی کا حصہ ہیں ۔فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ ہم ایک ’’سازشی اور تنگ نظری ‘‘ کو جھٹلا کر آگے بڑھ جاتے ہیں اور دور حاضر کے ساتھ چلتے ہیں یا ایک بار پھر کچھ صدیاں پیچھے جانا چاہتے ہیں ۔ فیصلہ اب ہمارے اپنے ہاتھ میں ہے ۔
Comments
Post a Comment