زندگی کی نفسیات

  زند گی کی نفسیات 
نفسیات کی ایک کلاس کا پہلا دن تھا ۔ ملک کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے فوجیوں کے بچوں نے آرمی کالج کے اس کلاس روم میں بھی ایک ملک کا ماحول بنا رکھا تھا۔ جس میں مختلف ثقافتیں مختلف رنگ و نسل کے لوگ مختلف شکل و صورت ہونے کے باوجود ایک مقصد لیے ایک پرچم تلے ایک ہوئے بیٹھے تھے۔کمرے میں میڈم کے داخل ہوتے ہی کمرے میں مکمل سکوت طاری ہوگیا۔سوالیہ نگاہوں سے ایک دوسرے کو دیکھا جا رہا تھا۔میڈم سامنے آکر کھڑی ہوگئیں۔تعارفی سیشن کی بجائے میڈم نے کلاس کو مخاظب کرتے ہوئے کہا
’’سب لوگ متوجہ ہوں ، میں ایک سوال کروں گی اور تمام لوگ اپنی اپنی سوچ کے مطابق اس کا جواب دیں گے‘‘
کلاس میں چند لوگ سہمے ہوئے نظر آنے لگے جبکہ کچھ لوگ پر عزم نگاہوں سے میڈم کو دیکھ رہے تھے۔اتنے میں پھر سکوت ٹوٹا اور میڈم کی آواز کمرے میں گونجنے لگی۔
’’آگ کے متعلق اپنی رائے دیں‘‘
سوال ایسا تھا کہ نا مشکل تھا اور نا ہی اس کا کوئی سیدھا سا جواب تھا۔اس سے پہلے کہ کوئی بولتا میڈم نے اپنی بات آگے بڑھائی
’’جس کے ذہن میں جو کچھ آئے بتا دے،کسی کا جواب غلط تصور نہیں ہوگا، اپنی نشست پر کھڑے ہوکر اپنا نام، شہر کا نام اور جواب بتا دیجیے‘‘
سب سے پہلی نشست پر گلگت سے آیا ہوا ایک نوجوان بیٹھا تھا اپنی نشست پر کھڑے ہوکر تشکر بھرے لہجے میں بولا
’’وقار احمد گلگت سے ،آگ ایک تحفہ ہے سردی سے بچاؤ کے لیے‘‘
میڈم نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بیٹھنے اور اگلی نشست والے کو اٹھنے کا کہا۔ نوجوان قدرے اکھڑے ہوئے لہجے میں
’’جاوید احمد سبی سے ، آگ سورج کی برستی گر می ہے‘‘
اگلی نشست ایک لڑکی کی تھی
’’سعدیہ سرگودھا سے ، آگ معاون ہے کئی کاموں میں‘‘
میڈم نے Nextکہا اور لڑکی بیٹھ گئی ۔
اگلی لڑکی کھڑی ہوئی قدرے دھیمی آواز میں
’’حافظہ سائرہ بتول لاہور سے،آگ سزا ہے گنہگاروں کے لیے‘‘
اگلی لڑکی کے جواب کا وقت آیا
’’زنیرہ احمد بدین سے ، آگ روشنی ہے‘‘
اگلی نشست پر بیٹھا لڑکا بولا
’’زبیر اسعد بہاولپور سے ، آگ ذریعہ ہے متوجہ کرنے کا‘‘
ایک ایک کرکے مکمل کلاس کا تعارف اور جواب کا سلسلہ ختم ہوا۔ میڈم نے کلاس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
’’سب کے جوابات درست ہیں ، سب نے بلکل اچھے الفاظ میں آگ کو بیان کیا ہے، آگ کے متعلق ہر ایک خیال اپنے اندر ایک جامع تجزیہ ہے۔مگر یہ تصویر کا ایک رخ ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ مختلف ہے۔ یکسر مختلف بلکہ یوں سمجھ لیجیے اس کے برعکس ہے۔اب میری بات کو غور سے سنیے ۔ہر ایک کا جواب مکمل طور پر رد ہے۔ کسی کا جواب اس قابل نہیں کہ اسے مناسب بھی مانا جائے۔
آپ سب اس سوچ میں ہوں گے کیسے یہ ممکن ہے کہ ایک سوال کا جواب مکمل جامع بھی ہو اور مکمل رد بھی؟؟
توجہ سے سنیے۔
ہر کسی نے اپنے حالات واقعات اور تعلیمات و تجربات کی بنیاد پر آگ کی تعریف بیان کی ہے۔جو کہ سب کو قابل قبول نہیں۔سب کا الگ الگ معاملہ ہے۔سب کے الگ حالات ہیں۔الگ تجربات ہیں۔الگ طرز فکر ہے۔میں اگر خود کو باری باری آپ کی جگہ رکھ کر سوچوں تو آپ کے جواب درست لگیں گے۔مگر جب میں آپ کے حالات سے الگ ہوکر آپ کے جواب کو اپنے سوال کی حالت میں رہ کر سوچوں تو سب کے جوابات غلط ہیں۔
اب میڈم نے ایک بار پھر سوال کیا
’’اگر یہ سوال آپ کے Exam کا واحد سوال ہو اورآپ کے یہی جواب ہوں تو آپ مجھ سے کیا توقع رکھیں گے؟؟
کلاس میں مکمل خاموشی تھی کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔میڈم نے سوال کو آسان کرتے ہوئے بات آگے بڑھائی
’’کیا آپ چاہیں گے کہ میں اپنے سوال کی حالت میں موجود رہ کر آپ سب کو صفر نمبر دوں اور فیل کردو ں؟؟ یا آپ چاہیں گے کہ میں باری باری آپ کی جگہ خود کو رکھ کر اس سوال کا جواب پرکھوں؟؟
سب نے دوسرے آپشن پر رضامندی اختیار کی اور ہم آواز ہوکر بولے مس سب کے جوابات ان کی حالت میں اتر کر دیکھیں۔
میڈم پرجوش طریقے سے کلاس کو مخاطب کرتے ہوئے بولی
’’Now this is the point جہاں میں آپ کو لانا چاہ رہی تھی‘ اب اس بات کو یہاں چھوڑ کر آگے چلیے ۔
ایکشن اور ری ایکشن کا سب کو پتا ہے؟؟
سب نے ہاں میں جواب دیا yes ,yesکی صدائیں آئیں میڈم بات کو آگے بڑھانے لگی
’’ میرا سوال ایک ایکشن تھا ، عمل تھا میرا، آپ کا جواب آپ کا ری ایکشن تھا ردعمل تھا آپ کا‘
آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کے رد عمل کو اپنے ایکشن کے حساب سے نہیں آپ لوگوں کی سوچ ، حالات واقعات، ضروریات اور مصروفیات کے پیرائے میں دیکھوں؟؟
جواب میں مکمل خاموشی تھی،میڈم نے پھر سوال کو مختلف انداز سے دہرایا
’’ کیا ایسا ہی ہے؟؟
کلاس میں سے ایک ہی آواز آئی yes madam
میڈم نے مسکراتے ہوئے سب کو مخاطب کیا
’’تو پھر ایسا کرنے سے کیا ہوگا؟؟
کلاس نے باری باری جواب دیے جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ایک تو آپ کے سوال کو مختلف جوابات مل جائیں گے گویا آپ کے ایکشن کو مختلف ری ایکشن سے روشناسی ملے گی ساتھ ہی ہم سب خوش ہوجائیں گے ہمارے جواب قبول ہوجائیں گے ہم کامیاب ہوجائیں گے۔
میڈم نے بات کو سمیٹے ہوئے کہا
’’تو بس پھر ، اپنے رویے کو جانچنے کے لیے اس سوال جواب کے سیشن کو پیمانہ سمجھ لیجیے‘‘
کلاس میں اطمینان کی لہر دوڑی کچھ چہروں پر مسکراہٹ نظر آئی کچھ ابھی سمجھ نہیں پائے تھے میڈم نے حالات کو سمجھتے ہوئے بات جاری رکھی
’’آپ زندگی میں جو کریں وہ ایسے ہی سمجھیں جیسے میں نے سوال کیا،خود کو میری جگہ رکھ کر سوچیں۔ پھر لوگ آپ سے جیسے بھی پیش آئیں اس کو کلاس کا جواب سمجھیں اور ذہن میں رکھیں کہ ہر کوئی طالبعلم ہے،سب اپنے انداز فکر ، حالات ، واقعات اور ضروریات کے ساتھ ساتھ تعلیمات کے مطابق جواب دیں گے۔ کوئی جیسے بھی پیش آئے اس کا رویہ اس کے حالت و واقعات کے سیاق و سباق میں قبول کر لیجیے جیسے میں نے آپ کے جواب قبول کر لیے۔آپ کو مختلف تجربات مل جائیں گے اور لوگوں میں ایسے ہی اطمینان اور اعتماد پیدا ہوگا جو ابھی آپ میں پیدا ہوگیاہے۔لوگ بھی کامیاب ہوجائیں گے ۔آپ بھی خوش رہیں گے۔ یہی زندگی خوش گزارنے کی نفسیات ہے‘‘
آج اس واقعے کو کئی سال گزر گئے مجھے آج بھی ایک ایک لفظ ایک ایک چہرہ ایک ایک انداز یاد ہے۔مگر عمل نہیں ہو پایا شاید اس لیے کہ میں اپنے عمل کو ’’ اپنا ایکشن ‘‘ سمجھتا ہی نہیں۔یا پھر میں سب کو طالبعلم نہیں سمجھتا ۔ یا شاید خود کو استاد نہیں سمجھتا ۔
بقلم خود ضیاء اللہ خان

Comments

Popular Posts